پاکستانی کام کی جگہوں پر سیکھنے، وفاداری اور اخلاقیات کا سفر
Tetralink Technologies جیسی کمپنیوں میں کام کرنے والے موجودہ اور چھوڑ کر چلے جانے ملازمین کے بارے میں نے اپنی زندگی کا نچوڑ نکالا ہے کہ پاکستان میں ملازمین کو پاؤں پر کھڑی کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ وہی ورکرز کیا سلوک کرتے ہیں؟ ان تجربات نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ ملازمین کس طرح پیشہ ورانہ ماحول میں سیکھتے ہیں، ترقی کرتے ہیں اور بعد میں اُسی کمپنی کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ میں اپنے خیالات شیئر کرنا چاہوں گا کہ ٹیٹرالینک جیسی کمپنیاں اپنے ورکرز میں کیسے سرمایہ کاری کرتی ہیں، سیکھنے کے کیا مواقع فراہم کرتی ہیں، اور ورکرز ان کوششوں کا کیا جواب دیتے ہیں۔
ورکرز کو خود مختار بنانے میں مدد دینا
ہماری جیسی کمپنیاں اپنے ملازمین کی ترقی میں مدد دینے کے لیے بہترین سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ Tetralink Technologies میں، پہلے دن سے ہی ورکرز کو نئی چیزیں سیکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ہمارے الیکٹرانکس کے شعبے میں، جیسا کہ انورٹرز، جینسیٹ کنٹرولرز اور ایس ایم ڈی اسکرینوں کے لیے سرکٹس بنانا، ابتدائی مرحلے سے لے کر حتمی پروڈکٹ تک کا سیکھنا۔ یہ عملی تربیت انہیں ایسی مہارتیں سکھاتی ہے جنہیں وہ کہیں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
ہم ان لوگوں کو بھی مواقع دینے پر یقین رکھتے ہیں جو پڑھائی میں کمزور ہیں یا سیکھنے سے گھبراتے ہیں۔ Tetralink Technologies میں، ہمارا خیال ہے کہ ایسے افراد کو ہنر سکھانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں اور معاشرے کی ترقی اور بہتری میں اپنا مثبت رول ادا کر سکیں۔ کسی کو صفر سے اٹھا کر کامیاب بنانا، یہ اس سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ کسی پہلے سے کامیاب شخص کو مزید بہتر بنایا جائے۔
دباؤ میں سیکھنا
بہترین سیکھنا دباؤ میں ہوتا ہے۔ امتحان کے دوران طلباء کی حالت کا سوچیں—وہ زیادہ محنت کرتے ہیں اور چند ہفتوں میں اتنا سیکھتے ہیں جتنا کہ وہ پورے سال میں نہیں سیکھ پاتے۔ اسی طرح ایک چیلنجنگ کام کی جگہ پر ورکرز زیادہ تیزی سے سیکھتے ہیں اور قیمتی تجربہ حاصل کرتے ہیں۔
جیک ما، جو علی بابا کے بانی ہیں، نے کہا کہ ورکرز کو ایسی کمپنیوں میں شامل ہونا چاہیے جو ترقی کر رہی ہوں۔ ایسی کمپنیاں اپنے ورکرز کو سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں کیونکہ وہ انہیں مختلف کاموں میں شامل کرتی ہیں۔ لیکن اگر آپ کسی مستحکم کمپنی میں شامل ہوتے ہیں، تو آپ زیادہ کچھ نہیں سیکھ سکتے کیونکہ وہاں کام پہلے سے طے شدہ اور محدود ہوتا ہے۔
ورکرز اکثر مواقع کی قدر نہیں کرتے
افسوس کی بات ہے کہ بہت سے ورکرز ان مواقع کی قدر نہیں کرتے جو انہیں ایک ایسی کمپنی میں ملتی ہے جو انہیں سب کچھ سکھاتی ہے۔ برسوں کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد بھی، وہ کمپنی اور کام کے بوجھ کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ جیسے ہی تھوڑی زیادہ تنخواہ والی نوکری ملتی ہے، وہ فوراً نوکری چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وفاداری کی کمی سے ان کمپنیوں کو نقصان پہنچتا ہے جنہوں نے ان کی کامیابی میں مدد کی۔
کام کی جگہ کی اخلاقیات
پاکستان میں ایک بڑی پریشانی کام کی جگہ پر اخلاقیات کی کمی ہے۔ بہت سے ورکرز، سال بھر سیکھنے اور ترقی کرنے کے باوجود، مناسب نوٹس دیے بغیر کمپنی چھوڑ دیتے ہیں۔ معیاری نوٹس کی مدت دو ماہ ہونی چاہیے، چاہے ورکر نوکری چھوڑیں یا کمپنی انہیں نکالے۔
کمپنیاں جو نئے ورکرز کو بھرتی کرتی ہیں، انہیں بھی اس اصول کی پیروی کرنی چاہیے۔ انہیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ نئے ورکرز اپنے موجودہ آجر کو دو ماہ کا نوٹس فراہم کریں۔ یہ پیشہ ورانہ امانت داری کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے اور منتقلی کو ہموار بناتا ہے۔
کام کی جگہ پر آرام دہ نوکری بمقابلہ ترقی
ورکرز اکثر آرام دہ نوکریوں کو ترجیح دیتے ہیں جہاں انہیں زیادہ محنت نہ کرنی پڑے، حالانکہ وہ ایسی ملازمتوں میں زیادہ سیکھتے نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ نوکریاں آرام دہ محسوس ہو سکتی ہیں، لیکن یہ طویل مدت میں ورکرز کو ترقی یا زیادہ کمائی کے مواقع فراہم نہیں کرتیں۔ ایسی کمپنیاں جو آپ کو سیکھنے کا چیلنج دیتی ہیں، وہ آپ کو روشن مستقبل کے لیے تیار کرتی ہیں۔
ایک سبق آموز کہانی
میرے دادا ہمیں ایک راج ہنس (ہانس) اور دھوبی کی کہانی سناتے تھے۔ ایک نر ہنس نے دھوبی پر ترس کھایا، جو تپتی دھوپ میں کام کر رہا تھا، اور روزانہ اسے اپنے پروں سے سایہ دینے لگا۔ مادہ ہنس نے اسے خبردار کیا تھا کہ وہ اس دھوبی سے دوستی نہ کرے۔ ایک دن، بادشاہ بیمار ہو گیا، اور اس کے معالج نے کہا کہ بادشاہ کو صحت یاب ہونے کے لیے ہنس کا گوشت چاہیے۔ دھوبی نے نر ہنس کو دھوکہ دیا، اسے پکڑا اور انعام کے بدلے بادشاہ کو دے دیا۔ مادہ ہنس نے اپنے ساتھی کے پروں کو زمین پر بکھرا دیکھ کر کہا، “میں نے تم سے کہا تھا کہ ان لوگوں پر بھروسہ نہ کرو جو اصولوں کے بغیر ہیں۔”
یہ کہانی ہمیں ایک اہم سبق دیتی ہے: ہمیشہ ان لوگوں کی مدد اور سرمایہ کاری کریں جو آپ کی قدر کرتے ہیں اور آپ کا احترام کرتے ہیں۔ آپ کی مدد کرنے والے کسی کو دھوکہ دینے سے سخت نتائج برآمد ہوں گے، کیونکہ زندگی آپ کے ساتھ وہی سلوک واپس کرنے کا ایک طریقہ رکھتی ہے۔
عاجزی اور محنت کی اہمیت
جب ہم صبح اٹھتے ہیں تو سب لوگ اپنے ہاتھوں سے واش روم میں اپنی صفائی کرتے ہیں، یہ ایک ذاتی عمل ہے جو ہم سب اپنے طور پر کرتے ہیں، چاہے ہمارے مالی حالات، حیثیت یا تعلیم کچھ بھی ہو۔ یہ ایک خود مختاری کا عمل ہے۔ تاہم، جب ہم واش روم سے باہر آتے ہیں تو ہم اپنے کام کی جگہوں یا گھروں میں صفائی جیسے کام دوسروں کو سونپ دیتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا کام کیا، اور ہم سب کے لیے ایک مثالی نمونہ چھوڑا۔ اگر ہم اپنے ذاتی کام خود کر سکتے ہیں، تو کیوں نہ اپنے کام کی جگہ یا بنیادی کاموں کو بھی خود انجام دیں؟ یہ خود انحصاری کردار کو مضبوط کرتی ہے اور تکبر کو دور کرتی ہے، جو سیکھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ Tetralink Technologies میں، ہم اپنے ورکرز کو ہر کام میں شامل کرتے ہیں، چاہے وہ اپنے ڈیسک کی صفائی ہو یا اعلیٰ سطح کے پروجیکٹس کی تکمیل۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے جو عاجزی اور محنت کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
کامیابی کا اعتراف
بہت سے ورکرز اپنے کامیابی کا سارا کریڈٹ اپنی صلاحیتوں کو دیتے ہیں، بھول جاتے ہیں کہ کمپنی نے ان کی ترقی میں کتنی مدد کی۔ وہ یہ نہیں دیکھ پاتے کہ ان کے ساتھی جو انہی حالات میں شروع ہوئے تھے، وہ اتنی کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کمپنی کی تربیت کتنی قیمتی ہے۔ اس کا اعتراف کرنا اور اس کی قدر کرنا ضروری ہے تاکہ اچھے تعلقات قائم رہیں اور طویل مدتی کامیابی حاصل کی جا سکے۔
زندگی کے اسباق
زندگی اکثر ہمیں غیر متوقع طریقوں سے اسباق سکھاتی ہے۔ جو لوگ ان کی مدد اور حمایت کی قدر نہیں کرتے، انہیں مستقبل میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وفاداری اور شکر گزاری صرف اچھے اصول نہیں ہیں—یہ کامیاب کیریئر بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
نتیجہ
پاکستان میں ہمیں ورکرز کے کام کے بارے میں سوچنے کے طریقے کو بدلنا ہوگا۔ سیکھنے کو آرام دہ کام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دینی چاہیے، عاجز رہنا چاہیے اور اچھے اخلاقی اصولوں پر عمل کرنا چاہیے تاکہ ورکرز اپنی حقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکیں۔ کمپنیاں اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے ماحول میں ترقی اور احترام دونوں پروان چڑھیں۔ ایک ساتھ مل کر ہم ایک ایسا ورک فورس بنا سکتے ہیں جو ہنر مند، اصول پسند اور وفادار ہو